اسامہ احمد میلا اور صاحبزادہ صبغت اللّٰہ کی جانب سے پیش کئے گئے بلز میں ریٹائرڈ ملازمین کی حکومتی اداروں میں دوبارہ تعیناتی پر پابندی اور پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کرنے کی ترامیم متعارف کرائی گئی تھیں
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کا اجلاس میں اسامہ احمد میلا کی جانب سے پیش کردہ سول سرونٹس ترمیمی بل 2025 پر غور کیا گیا۔ اسامہ احمد میلا نے سول سرونٹس ایکٹ 1973 کی شق 14 میں ترمیم متعارف کی جس کے مطابق حکومت کسی ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ ملازمت دے تو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی سے منظوری لے۔ بل کے محرک نے مؤقف اپنایا کہ جن لوگوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت دی گئی اس ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے۔ اسامہ احمد میلا نے کہا عوامی مفاد کو تعین کرنا عوامی نمائندوں کا کام ہے۔ خصوصی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سارہ سعید نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اس سے ایک نئی بحث چھڑ جائے گی۔کمیٹی رکن شاندانہ گلزار نے کہا کہ موجودہ نظام کام نہیں کر رہا ہمیں یہ قبول کرنا ہو گا۔ چیئرمین کمیٹی ملک ابرار احمد نے بل مؤخر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ بل پر مزید مشاورت ضروری ہے۔ اسامہ احمد میلا کے سول سرونٹس ترمیمی بل 2025 میں تجویز کیا گیا تھا کہ حکومتی اداروں میں ریٹائرڈ ملازمین کی تعیناتی کی منظوری کے لئے پارلیمنٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں سے منظوری حاصل کی جائے۔ قائمہ کمیٹی اجلاس میں صاحبزادہ صبغت اللہ کی جانب سے ریٹائرڈ سول سرونٹس کو دوبارہ حکومتی اداروں میں نوکری دینے پر پابندی کے بل پر بھی غور کیا گیا۔ بل پر بریفنگ دیتے ہوئے خصوصی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا کہ کچھ خاص حالات میں ریٹائرڈ افسران کو دوبارہ ملازمت دینے کی اجازت ہے۔ وفاقی کابینہ نے 1990 میں ریٹائرڈ سول سرونٹ کو دوبارہ ملازمت دینے کو خاص حالات میں وزیراعظم کی منظوری دے مشروط کیا۔ حال ہی میں آڈیٹرز کی کمی کے باعث ریٹائرڈ آڈیٹرز کو دوبارہ ملازمت دی گئی۔ اس مشروط اجازت کا بے دریغ استعمال نہیں کیا جاتا۔ صاحبزادہ صبغت اللّٰہ نے مؤقف اپنایا کہ 1990 کے کابینہ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوا۔اگر کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوتا تو سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس نہ لینا پڑتا۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے فیصلے میں دوبارہ ملازمت دینے پر پابندی عائد کی ہے۔ چئیرمین کمیٹی نے بل پر مزید مشاورت کا مشورہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ وزیراعظم نے عمر کی حد میں بھی کبھی ریلیکسیشن نہیں دی۔ ہم ریٹائرڈ ملازمین کی دوبارہ ملازمت پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریٹائرڈ ملازمین کی دوبارہ ملازمت پر پابندی لگانے سے ملک کا نظام رک جائے گا۔ قائمہ کمیٹی نے بل منظور نہیں کیا، دوبارہ ملازمت دینے کی شق کا کم سے کم استعمال کی سفارش کر دی۔ قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ میں نور عالم خان کی جانب سے پیش کردہ سول سرونٹس ترمیمی بل پر بھی غور کیا گیا۔ نور عالم خان نے مؤقف اپنایا کہ سول سروسز میں دوہری شہریت رکھنے والے بہت سے افسران ہیں۔ بیوروکریسی نے بل کے جواب میں ایک مذاق کیا ہے۔رکن پارلیمنٹ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا، بیوروکریٹ کیسے دوہری شہریت رکھ سکتا ہے؟بیوروکریسی اس بل پر ٹال مٹول سے کام کر رہی ہے۔ سوال کیا کہ ان افسران کے مفادات پاکستان میں کیا ہوں گے جن کے خاندان یورپ میں ہوں گے۔ خصوصی سیکریٹری نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس حوالے سے ایک فیصلہ دیا تھا۔ پاکستان نے 22 ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کے معاہدے کئے ہیں۔پاکستان میں سول سرونٹ بننے کے لئے پاکستانی نیشنل ہونا ضروری ہے۔ آرٹیکل 27 کے مطابق پاکستان میں سروس کے لئے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دوہری شہریت والے افسران پر پابندی لگائی جائے گی تو یہ امتیازی سلوک ہو گا۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 19 لوگوں کے پاس اس وقت دوہری شہریت ہے۔ سول سرونٹس کی سیکیورٹی کلیئرنس آئی بی اور آئی ایس آئی کرتی ہیں۔سول سرونٹس کی بیرون ملک جائیدادوں کے حوالے سے بہت بات ہو رہی ہے۔ سول سرونٹس کے لئے اندرون اور بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ نور عالم خان نے جواب دیا کہ سیکریٹری صاحبہ اپنے دوہری شہریت والے ساتھیوں کا دفاع کر رہی ہیں۔ہمارے بیوروکریٹس ہی پالیسی میکرز ہیں۔ کیا بھارت میں دوہری شہریت رکھنے والے لوگ سول سروس میں آ سکتے ہیں؟ اگر کوئی پاکستان آ کر خدمت کرنا چاہتا ہے تو باہر کی شہریت چھوڑ دے۔ ملک کا برا حال پالیسی میکرز کی وجہ سے ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے اس بل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے اس معاملے پر دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ وزیر اعظم نے اس معاملے پر خود نظر ثانی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے حتمی جواب آئے گا تو اس پر ووٹنگ کرائیں گے۔قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے سول افسران کی دوہری شہریت پر پابندی کے بل کو مؤخر کر دیا۔