
تحریر :۔ انتظار حیدری

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونیوالا دفاعی معاہدہ نہ صرف دو ممالک کے درمیان ایک غیر معمولی اورتاریخی معاہدہ ہے بلکہ یہ بین الاقوامی دنیا کےلئے سال 2025ءکی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کے طور پر تھی جس پر دوست ممالک اور اتحادی خوش جبکہ انڈیا و اسرائیل جیسے دشمنوں کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ثابت ہورہی ہے کیونکہ اس وقت تل ابیب تا نئی دہلی تک جو چیخ و پکار ہے وہ آسمانوں سے باتیں کررہی ہے انڈین میڈیا یہ سوالات اٹھا رہاہے کہ کیا اب آپریشن سندور جوکہ ان کے مطابق جاری ہے اگر مزید کوئی حرکت کی گئی تو کیا وہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگی اسی طرح تل ابیب میں بھی یہ سوال جگہ بنا رہاہے کہ سعودی عرب کی طرف کوئی اقدام ہو تو کیا اسے اسلام آباد پر حملہ تصور کیا جائےگا “ ایسا کیوں سوچا جارہاہے تو اس کا جواب ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جو تاریخی ”اسٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ“ہواہے میں واضح کہاگیا ہے کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائےگا، ایک ملک کا دفاع دوسرے ملک کا دفاع ہوگا۔
قارئین کرام ! اس سے قبل ذراکچھ دن پہلے کی صورتحال کی جانب دیکھیں تو کچھ غیر معمولی میٹنگز اور ملاقاتیں ہوئیں جس کے بعد جب پاکستان کا یہ اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب پہنچا تو اس کا جس شاندار انداز سے استقبال شروع ہوا تو اسی وقت بین الاقوامی میڈیا اور دنیا کے کان کھڑے ہوگئے کہ کچھ غیر معمولی ہونے جارہاہے۔ قطر پر اسرائیل کی جانب سے حملہ کے بعد دوحہ میں عرب اسلامک سربراہی کانفرنس کا اجلاس طلب کیاگیا اس اجلاس سے قبل ایران کی جانب سے مشترکہ آپریشن روم کی تجویز دی جبکہ پاکستان کی جانب سے کہاگیا کہ فقط مذمت یا مذمتی قراردادوں سے کچھ نہیں ہوگا عملی اقدامات کی جانب بڑھنا ہوگا یہ ان دو اسلامی ممالک کی طرف سے واضح پیغا م تھا جو یکے بعد دیگرے بھارت و اسرائیل کو ناکوں چنے چبواچکے تھے اور دنیا پر واضح کردیا کہ بھارت جو اسلحہ کے زور پر اتراتا ہے پاکستان کی دفاعی صلاحیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے اور آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی کو عالمی دنیا نے سراہا جبکہ ایران نے امام خمینی کے اس پیغام ”اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی کمزور“ کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا جب ہزاروں میل دور بیٹھے دشمن کو اپنے میزائل حملوں سے اس کا شہر حیفہ ، تل ابیب و دیگر جگہوں کا وہ نقشہ بنادیا جیسا کہ صہیونی قابض ریاست نے غزہ کو ملیامیٹ کیا ۔

عرب اسلامک سربراہی کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر تین اہم اور غیر معمولی میٹنگز ہوئیں جن میں پہلی میٹنگ پاکستان اور سعودی عرب کی قیادتوں کے درمیان ہوئی ، دوسری ملاقات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی ہوئی اور بعد ازاں وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف اور ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی ملاقات ہوئی اس سے قبل شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر بھی فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان بھی نہ صرف ملاقات ہوچکی تھی بلکہ اس موقع پر پھی دونوں برادر ہمسائیہ ممالک کی قیادتوں کی مشاورت ہوئی جن میں علاقائی سلامتی، باہمی تعاون، خطے کی بدلتی صورتحال سمیت کئی امور پر مفصل تبادلہ خیال کیاگیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں انڈیا کی موجودگی میں پاکستان کو غیر معمولی پروٹوکول، چینی ،روسی، ایرانی صدور سے اہم ترین ملاقاتیں اور تاریخی پریڈ میں شرکت غیر معمولی نوعیت کے عوامل تھے۔
دوحہ کانفرنس کے فوری بعد ایران کی قومی سلامتی کے ؒسربراہ اور رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مشیر خاص علی لاریجانی سعودی عرب گئے تو ان کا غیر معمولی استقبال کیاگیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کیساتھ طویل ترین مذاکراتی دورہوا۔خوشگوار انداز میں ہونیوالی اس طویل ترین ملاقات کے بعد علی لاریجانی نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی احترام کا رشتہ مزید مضبوط ہورہا ہے جبکہ اقتصادی تعاون جس کی سطح کم ہے اسے مزید وسعت دینے پر اتفاق کیاگیا ہے ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون پر بھی بات ہوئی اور طے پایا کہ یہ امور ورکنگ گروپس کی صورت میں آگے بڑھائے جائیں گے اور ان شاء اللہ مستقبل میں یہ تعاون زیادہ منظم شکل اختیار کرے گا۔ ایرانی میڈیا سے گفتگو کے دوران لاریجانی نے قطر پر صہیونی حملے کے بعد عرب ممالک کی سوچ اور حکمت عملی میں تبدیلی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جی ہاں، یقینا تبدیلی آئے گی،دراصل سعودی دوستوں کا پہلے سے بھی ان تبدیلیوں کے بارے میں نسبتا واضح نقطئہ نظر تھا، لیکن اب یہ بہت زیادہ آشکار ہوگیا ہے،خطے کے مختلف ممالک اس بات کو بخوبی محسوس کررہے ہیں کہ وہی بات جو ایران پہلے سے کہتا آرہا تھا، اب زیادہ عملی اور واضح صورت اختیار کرچکی ہے۔

ابھی یہ ملاقات ختم ہوئی کہ اس کے کچھ دیر بعد پاکستان کاوفد سعودی عرب پہنچا جس کاپرتپاک استقبال جسے عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج دی ، اس کے بعد پاکستان اور سعودی عرب میں باقاعدہ طور پر تاریخی ”اسٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ“ کا اعلان ہوا تو یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ خطے کے ممالک کے ساتھ طویل ترین مشاورت، اہم ترین علاقائی و بین الاقوامی سطح کی میٹنگز اور خطے کی بدلتی صورتحال میں ہوا ہے ۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کہہ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ فقط سعودی عرب اور پاکستان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس میں دیگر ممالک بھی شامل ہونگے جس سے واضح ہورہاہے اور بین الاقوامی دفاعی ماہرین بھی اپنی آراءکا اظہار کررہے ہیں کہ پاکستان خطے میں ایک بڑے کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آچکاہے جس سے نہ صرف اس کے ازلی دشمن بھارت کےلئے مزید مشکلات بڑھیں گی بلکہ پاکستان کا اثرو رسوخ مزید آگے بڑھے گا کہ اب اگر انڈیا کی جانب سے کوئی جارحیت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ماضی میں پاکستان کیساتھ ترکیہ اور چین تھے اور اب اس میں سعودی عرب کا اضافہ بھی ہوچکا ہے جبکہ ایران اور قطر پر بیرونی جارحیت کےخلاف جس طرح پاکستان کھل کر سامنے آیا اب یہ ممالک بھی اسی طرز عمل کا اظہار کرینگے کیونکہ اسرائیل ایران جنگ میں جس طرح پاکستان نے کھل کر اپنے ہمسائیہ برادر ملک کا ساتھ دیا ایرانی پارلیمنٹ نے اظہار تشکر کے طور پر قرارداد منظور کی،ایرانی صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

بین الاقوامی خبررساں ادارے ڈی ڈبلیو نے بھی مختلف تجزیہ کاروں کے حوالوں کیساتھ تحریر کیاہے کہ خطے میں پاکستان کا کردار مزید واضح ، مضبوط ہوکر سامنے آیا ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت ہے جس کا عرب ممالک میں فقدان تھا پاکستان کے پاس بہترین دفاعی صلاحیت، تجربہ جبکہ عرب ممالک کے پاس معاشی لحاظ سے بے پناہ وسائل ہیں اور ایسی صورت میں یہ ممالک ایک دوسرے سے بہترین انداز میں مستفید ہوسکیں گے۔
پاکستان کے بڑے اخبار ڈان کی ویب سائٹ نے ایک تجزیہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان کے پاس بلواسطہ سعودی عرب کی طاقت اور سعودی عرب کے پاس پاکستان کی طاقت آگئی ہے اور ان دونوں کا امتزاج دونوں کی آزادی، خود مختاری کے ساتھ دفاعی صلاحیت میں اضافے کاسبب بن گئی ہے اور وقت کے ساتھ اس میں مزید گہرائی ہوگی جس کا واضح مطلب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو روکنا ہے اور یہ معاہدہ خطے میں ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہاہے۔
اس وقت غزہ میں فلسطینی عوام جن مشکلات و مصائب و مظالم کا شکار ہیں انہیں انسانی ہمدردی اور مسلم بھائی چارگی کی کہیں زیادہ ضرورت ہے ، مسلم حکمرانوں کو دفاع کیساتھ قبلہ اول کی آزادی کےلئے عملی اقدامات جانب غور کرنے کی ضرورت ہے آپس کا دفاع لازم مگر بیت المقدس کی آزادی بھی انکے فریضے میں شامل ہے ، امید کی جانی چاہیے کہ مسلم اور خطے کے ممالک کے آپس میں بڑھتے رابطو ں اور معاہدوں کا فائدہ ضرور مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں تک پہنچے گا۔