
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ طے پاگیا
پاکستان کی جوہری چھتری مکمل تحفظ دے گی، سعودی حکومتی ذرائع
سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کا امریکہ سے اعتماد خراب ہوچکا، قطر پر حملے کے بعد عرب ممالک فیصلہ کن مرحلے کی جانب بڑھ چکے، بین الاقوامی میڈیا

بی بی سی نے گزشتہ روز اپنی ایک مفصل رپورٹ کو شائع کیا ہے جس کے ابتدائیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کے بعد خطے پر اس کے اثرات اور بین الاقوامی سیاست میں اس کے مضمرات کا معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کے اعلان نے کئی وجوہات کی بنا پر ہلچل مچا دی ہے۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ سٹریٹجک معاہدہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے اور خطے سے متعلق اسرائیل کی حکمت عملی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نو ستمبر کو قطر میں اسرائیلی کارروائی کے بعد کسی خلیجی ریاست کی جانب سے اُٹھایا گیا یہ پہلا بڑا دفاعی ردعمل ہے۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کے حملے نے خلیجی ممالک کے خدشات کو ہوا دی ہے کہ ان کا دفاع کرنے کے لیے امریکہ کے عزم میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دوحہ پر اسرائیلی حملے کو ’وحشیانہ جارحیت‘ قرار دیا تھا جس کے لیے عرب، اسلامی اور بین الاقوامی ردعمل کی ضرورت ہے۔
’اچانک اور چونکا دینے والی پیش رفت‘
آسٹرین انسٹی ٹیوٹ فار یورپ اینڈ سکیورٹی پالیسی کی ڈائریکٹر ریسرچر ویلینا چاکارووا کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ ایک ’اچانک اور چونکا دینے والی جغرافیائی سیاسی پیش رفت‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔
اُن کے بقول اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاض اب مکمل طور پر ’امریکی جوہری تحفظ‘ پر انحصار سے مطمئن نہیں ہے۔
چاکارووا نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ اس معاہدے کے ساتھ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا ایک ’نئی جغرافیائی سیاسی حقیقت‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔
بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں، سعودی سیاسی محقق مبارک العطیٰ نے کہا کہ یہ معاہدہ حیران کن نہیں ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان 80 برس سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور یہ سب کو معلوم ہے۔
العطیٰ کا خیال ہے کہ اس معاہدے کا خاص پہلو یہ ہے کہ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطہ اور عالمی برادری انتہائی پیچیدہ سیاسی صورتحال سے گزر رہی ہے۔
’علاقائی طاقت کے توازن میں تبدیلی‘
سعودی وزارت دفاع کے مطابق ’سٹریٹجک‘ معاہدے کا مقصد سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ ڈیٹرنس کو بڑھانا ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں کے خلاف جارحیت ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، مبارک العطی نے ان پیچیدہ تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا جن کی وجہ سے اس معاہدے کی بنیاد رکھی گئی۔
اُن کے بقول اس کا تعلق خطے میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی کارروائیاں اور قطر پر اسرائیل کے حملے کے دوران اس کے سٹریٹجک اتحادی امریکہ کی جانب سے دھوکہ دہی سے ہے۔
کئی دہائیوں سے امریکہ اور چھ خلیجی ریاستوں بحرین، کویت، عمان، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان ایک معاہدہ چلا آ رہا ہے۔ اس کے تحت واشنگٹن تیل اور گیس کی فراہمی کے عوض ان چھ ملکوں کو سکیورٹی ضمانت دینے کا پابند ہے۔
برطانوی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق اس معاہدے کی بنیاد میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب سنہ 2019 میں ایران نواز حوثی باغیوں نے سعودی عرب اور سنہ 2022 میں متحدہ عرب امارات میں حملے کیے۔ ان دونوں مواقع پر امریکہ کی جانب سے کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
’دی اکانومسٹ‘ کے مطابق خلیجی ریاستیں اب نہ صرف اس بات کی ضمانت مانگ رہی ہیں کہ اسرائیل قطر یا کسی دوسرے ملک کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں دہرائے گا بلکہ یہ اب اس سے بھی زیادہ قابل اعتماد اور طویل مدتی سلامتی کی ضمانتیں مانگ رہی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، سعودی محقق العطی نے کہا کہ ان کا ملک ’اپنی سلامتی یا سٹریٹجک مسائل کے لیے کسی ایک اتحادی پر انحصار نہیں کرنا چاہتا؛ اس لیے وہ اپنے اتحاد کو متنوع بنانا ضروری سمجھتا ہے۔‘
مبصرین کا خیال ہے کہ نیا معاہدہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز کر سکتا ہے، اور یہ اسرائیل کے سٹریٹجک اہداف کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت پاکستان سعودی سرزمین پر بغیر کسی استثنیٰ کے اپنے میزائل یا اپنا کوئی ہتھیار نصب کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کا اپنا فیصلہ
ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے فیلو حسین حقانی کے مطابق، نئے سعودی-پاکستان مشترکہ دفاعی معاہدے کی وضاحت میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’حکمت عملی‘ میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا احاطہ کرتی ہے۔
حسین حقانی نے ایکس پر لکھا کہ پاکستان اپنے میزائل اور جوہری پروگرام کی وضاحت کے لیے اکثر ’سٹریٹجک‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔
العطی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ’سعودی خود مختار فیصلہ سازی کی طاقت‘ کو ظاہر کرتا ہے، جو متعدد طاقتوں کے ساتھ اپنے اتحاد کو متنوع بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور خود کو کسی ایک اتحادی تک محدود نہیں رکھتا، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘
اُن کے بقول یہ معاہدہ سعودی عرب کی طرف سے کسی دوسری طاقت کے ساتھ طے پانے والے کسی دوسرے معاہدے کو منسوخ نہیں کرتا ہے بلکہ ان معاہدوں کو مزید تقویت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں خطے میں امریکہ کی زیر قیادت سکیورٹی سے متعلق مضبوط شراکت دار ہیں۔ یہ امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے آپریشنل دائرہ کار میں بھی سب سے اہم ممالک میں شامل ہیں۔
العطی کے مطابق امریکہ سعودی عرب کا بنیادی سکیورٹی پارٹنر ہے، پاکستان کے ساتھ یہ دفاعی معاہدہ دونوں ممالک اور اسلامی دنیا کے لیے علاقائی سیاست (جیو پولیٹیکل) اور سٹرٹیجک فوائد کا حامل ہے۔
العطی کہتے ہیں کہ ایک مشترکہ مذہب اور دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط اعتماد نے پاکستان اور سعودی عرب کو متحد کیا ہے۔
اُن کے بقول دونوں ملکوں کو خلیج عمان تقسیم کرتا ہے جو ان کے جغرافیائی محل و وقوع کو مزید اہم بناتا ہے جبکہ خطے میں بڑی تعداد میں پاکستانی آبادی سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے بھی یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔
پاکستان واحد مسلم اکثریتی ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ اسلام آباد کے پاس 170 سے زیادہ جوہری ہتھیار اور جوہری مواد لیجانے والے وار ہیڈز موجود ہیں۔
سعودی عرب نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں اپنی سرمایہ کاری کو 25 ارب ڈالرز تک بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔
بلومبرگ کے مطابق، سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ پاکستان میں معدنیات اور پیٹرولیم کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان کے مرکزی بینک میں اپنے ڈپازٹ دو ارب ڈالرز تک بڑھانے پر بھی غور کر رہا ہے۔
تاریخی شراکت داری
سرکاری سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق، پاکستان کے ساتھ نیا مشترکہ دفاعی معاہدہ ’تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارے اور اسلامی یکجہتی کے بندھن پر مبنی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کا بھی عکاس ہے۔
مبصرین کے مطابق، مکہ اور مدینہ میں دو مقدس مساجد کے دفاع کے لیے سکیورٹی کا عزم پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ’اتحاد کی بنیاد‘ ہے۔
سنہ 1960 میں پہلی مرتبہ پاکستان کی فوج سعودی عرب کی سرزمین پر تب آئی تھی جب یمن میں مصری افواج کی طرف سے جنگ چھیڑنے کے خدشات نے سر اُٹھایا۔
اس کے بعد سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد تہران کے ساتھ تصادم کے خدشات کے دوران بھی پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مزید قریب آ گئے۔
سنہ 1991 میں عراق کی کویت پر چڑھائی کے دوران بھی پاکستان نے ایک فوجی دستہ سعودی عرب بھیجا تھا جسے مکہ اور مدینہ میں مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔
سنہ 2016 میں پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کی تھی۔
سنہ 2018 تک پاکستانی فوج کے ایک ہزار سے زائد افسران اور اہلکار تربیت کے لیے سعودی عرب میں موجود تھے۔
کیا دیگر خلیجی ممالک بھی دفاعی معاہدے میں شامل ہو سکتے ہیں؟
کچھ تجزیہ کار پاکستان کے دفاعی بجٹ اور اس کے جوہری ہتھیاروں کو وسعت دینے کے لیے ریاض کو اسلام آباد کے جوہری پروگرام کا ’خاموش فنانسر‘ بھی قرار دیتے ہیں۔
دی اکانومسٹ کے مطابق برسوں سے پاکستانی مبصرین اور سفارت کاروں نے بار بار یہ دلیل دی ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی ’جوہری طاقت‘ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کے امور کے محقق طلحہ عبدالرزاق کے مطابق سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ ایک ایسے معاہدے کا مرکز بن سکتا ہے جس میں خطے کے دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
ایکس پر اپنی پوسٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ خطے کے ممالک اب امریکہ کی سکیورٹی ضمانت کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور اب خلیجی ریاستیں اپنے سکیورٹی معاہدوں کو متنوع بنانے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں دوسرے خلیجی ممالک کی شمولیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’یہ ممکن ہے اگر جی سی سی میں شامل کوئی بھی ملک ایسا کوئی اشارہ دیتا ہے تو جیسا باہمی معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ ہوا ہے، ہم باقی (ممالک) کو بھی اس میں شامل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستان کے بڑے اخبار روزنامہ جنگ میں اے ایف پی کے حوالے سے خبر اپنے فرنٹ پیج پر نشر کی ہے
سعودی حکومت کے قریبی ذریعے نے اتوار کو اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان کی جوہری چھتری سعودی عرب کو تحفظ فراہم کرے گی۔ یہ اعلان دونوں اتحادیوں کے درمیان ایک غیر متوقع باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔ ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ معاہدہ برسوں سے زیرِ غور تھا اور سعودی عرب کو توقع ہے کہ پاکستان کا روایتی حریف بھارت مملکت کی سیکورٹی ضروریات کو سمجھے گا۔جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کے دفاع کے لیے پاکستان کے جوہری ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں، تو شاہی دربار کے قریب سمجھے جانے والے تجزیہ کار علی شہابی نے اے ایف پی کو بتایا: “جی ہاں، بالکل۔”انہوں نے مزید کہا، “جوہری ہتھیار اس معاہدے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ پاکستان کو یاد ہے کہ مملکت نے ان کے جوہری پروگرام کو مالی مدد فراہم کی تھی اور جب ان پر پابندیاں لگائی گئی تھیں تو ان کا ساتھ دیا تھا۔” “بھارت سعودی عرب کی سیکورٹی ضروریات کو سمجھے گا۔ سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔” معاہدے پر دستخط کے بعد، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک مقامی نشریاتی ادارے کو بتایا تھاکہ ضرورت پڑنے پر ملک کا جوہری پروگرام سعودی عرب کے لیے دستیاب ہو گا۔ باہمی دفاعی معاہدے پر ریاض میں دستخط کیے گئے، یہ واقعہ ہمسایہ ملک قطر میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی حملے کے چند دن بعد پیش آیا۔ اس حملے نے خلیجی ریاستوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی تھی، جو طویل عرصے سے اپنی سلامتی کے لیے امریکاپر انحصار کرتی رہی ہیں۔
بشکریہ بی بی سی، اے ایف پی، روزنامہ جنگ