ٹرمپ اور نیلسن منڈیلا ایک ہی صف میں……..؟
مصر کی جانب سے سب سے اعلیٰ ترین سرکاری اعزاز”آرڈر آف دی نیل “ امریکی صدر کو دینے کا اعلان
نیلسن منڈیلا، جمی کارٹر، شاہ سلمان کے بعد ٹرمپ بھی اس مصری تاریخی اعزاز کے حامل قراردیدیئے گئے
امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ جنہوں نے اپنے حوالے سے بھرپور مہم چلائی کہ نوبیل انعام کے اصل حق دار وہ ہیں کیونکہ انہوں نے دنیا کے بڑے تنازعات کو ختم کرانے میں اہم ترین کردار ادا کیاہے وہ بارہا پہلے یوکرین روس مسئلے کا تذکرہ کرتے رہے،پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کا کریڈٹ بھی لیتے رہے اور اب غزہ میں جنگ بندی کرانے کا کریڈٹ بھی وہ خود کو ہی دیتے ہیں مگر اس کے باوجو د انہیں نوبیل پرائز نہیں ملا مگر حالیہ امن معاہدہ کے بعد مصر کی جانب سے ایک بڑا اعلان کردیاگیاہے اور وہ ہے آرڈر آف دی نیل یعنی تمغہ نیل جو مصر کا سب سے تاریخی اعزا ز ہے جو انسانیت کےلئے غیر معمولی خدمات انجام دینے والی شخصیات کو ہی دیا جاتاہے ۔

اس حوالے سے معروف برطانوی نشریاتی و اشاعتی ادارے بی بی سی نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے جو لفظ بہ لفظ پیش کی جارہی ہے بی بی سی اردو ویب سائٹ سے شکریہ کیساتھ
مصر کے ایوان صدر کی طرف سے جاری کردہ ایک سرکاری اعلان نے نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر میں ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ در اصل مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز ‘آرڈر آف دی نیل’ یعنی تمغہِ نیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایوانِ صدر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تمغہ ٹرمپ کو ‘امن کی کوششوں اور تنازعات کے حل میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے، خاص طور پر حال ہی میں غزہ جنگ کے خاتمے میں ان کے اہم کردار کے لیے۔‘
یہ فیصلہ شرم الشیخ میں دونوں صدور کی سربراہی اجلاس کے موقع پر کیا گیا تھا، جس میں مشرق وسطیٰ میں امن پر بات چیت کے لیے بیس سے زائد رہنما اکٹھے ہوئے۔
لیکن نیل ہار یا تمغہِ نیل کیا ہے اور صدر ٹرمپ کو کیوں دیا جا رہا ہے؟
تمغہِ نیل: تاریخ اور علامتی حیثیت
تمغہِ نیل مصر کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ یہ سب سے پہلے 1915 میں سلطان حسین کامل کے دور حکومت میں پیش کیا گیا تھا ان لوگوں کے اعزاز میں جنھوں نے ‘مصر یا انسانیت کے لیے ممتاز خدمات انجام دی ہیں۔’
جولائی 1952 کے انقلاب اور ملک میں جمہوریت کے اعلان کے بعد اس اعزازی نظام کو مکمل طور پر دوبارہ منظم کیا گیا اور تمغہِ نیل ملک کا سب سے بڑا اعزاز بن گیا۔ یہ ملک کے صدر کے فیصلے سے خصوصی طور پر ان سربراہان مملکت یا شخصیات کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ممتاز انسانی یا ثقافتی اثرات چھوڑے ہوں۔
1972 کے مصری قانون کے مطابق یہ تمغہ ‘ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنھوں نے قوم یا انسانیت کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہوں۔’
سائنس، فکر اور سفارتکاری کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے سربراہانِ مملکت اور عالمی شخصیات کو یہ تمغہ دیا جاتا ہے۔ ایک سرکاری ‘پیٹنٹ’ جاری کیا جاتا ہے، جس پر ملک کے صدر کے دستخط ہوتے ہیں۔
پچھلی دہائیوں کے دوران تمغہِ نیل مصر کی طرف سے کی کسی شخصیت کی تعریف کی علامت بن گیا ہے، جو ان لوگوں کے لیے گہرے تشکر کا اظہار ہے جنھوں نے ملک کی ترقی میں تعاون کیا یا اس کے بین الاقوامی موقف کی حمایت کی۔
ڈیزائن اور علامتی معنی
یہ ہار خالص سونے یا سنہری چاندی سے بنا ہے اور اس کا ڈیزائن قدیم مصری ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ تمغہ رنگین تامچینی اور فرعونی علامتوں سے مزین ہیں، جو کمل کے پھولوں سے جڑی دو متوازی زنجیروں سے جڑی ہوئی ہیں اور مصری تہذیب میں ’پاکیزگی اور ابدیت‘ کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔
ہار میں ایک بڑا سرکلر میڈلین لٹکا ہوا ہے جو نیل کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ تمغہ صدارتی محل کے اندر ایک سرکاری تقریب میں دیا جاتا ہے، جہاں صدر ذاتی طور پر یہ تمغہ پیش کرتے ہیں۔
تمغہ حاصل کرنے والے کی موت پر فوجی پروٹوکول کے مطابق ایک سرکاری تقریب منعقد کی جاتی ہے۔

ممتاز بین الاقوامی شخصیات جنھوں نے تمغہ وصول کیا
کئی دہائیوں کے دوران کئی بین الاقوامی شخصیات کو اس تمغے سے نوازا گیا ہے۔
1979 میں صدر انور سادات نے امریکی صدر جمی کارٹر کو مصر-اسرائیل امن معاہدے تک پہنچنے میں ان کے اہم کردار کے اعتراف میں یہ میڈل دیا تھا۔
یوگوسلاویہ کے رہنما جوزپ بروز ٹیٹو یہ تمغہ حاصل کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنماؤں میں سے ایک تھے، جنھیں 1955 میں صدر جمال عبدالناصر سے یہ اعزاز ملا تھا۔
1975 میں ملکہ الزبتھ دوم کو مصر کے سرکاری دورے کے موقع پر یہ تمغہ دیا گیا تھا۔
اگلے برس صدر انور سادات نے اکتوبر 1973 کی جنگ کے دوران مصر کے لیے ان کے ملک کی حمایت کی تعریف میں یہ اعزاز سلطان قابوس بن سعید کو دیا۔
1990 میں نیلسن منڈیلا نے اسے نسلی تفریق کے خلاف جدوجہد کے اعتراف میں حاصل کیا جبکہ اسی سال صدر حسنی مبارک نے اسے جاپان کے شہنشاہ اکیہیٹو کو دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے اظہار کے طور پر پیش کیا۔
حالیہ برسوں میں تمغہِ نیل شاہ سلمان بن عبدالعزیز، شاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ اور موریطانیہ کے صدر محمد اولد عبدالعزیز کو دیا گیا ہے جو مصر اور ان ممالک کے درمیان گہرے سیاسی اور تاریخی تعلقات کو اجاگر کرتا ہے۔
یہ تمغہ ٹرمپ کو کیوں دیا گیا؟
بلاشبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نیل نیکلس دینے کا فیصلہ خطے میں پے در پے ہونے والی پیش رفتوں کے دوران سامنے آیا ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق یہ فیصلہ ان کی ‘امن کی کوششوں اور تنازعات کو کم کرنے کے لیے تعاون کے اعتراف میں کیا گیا، حال ہی میں غزہ جنگ کے خاتمے میں ان کے اہم کردار۔’
ٹرمپ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی سرپرستی کی جس کی وجہ سے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، جس میں مصر، امریکہ اور قطر نے بھی بطور ثالث کردار ادا کیا۔ اس سے قاہرہ کو مسئلہ فلسطین میں بنیادی ثالث کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع ملا۔

تعریف اور تنازع کے درمیان
امریکی صدر کو یہ تمغہ دینے کا فیصلہ بحث و تکرار کے بغیر نہیں ہوا۔
جہاں کچھ لوگوں نے اسے امن کے حصول کی کوششوں کو خراج تحسین کے طور پر دیکھا، ناقدین نے دلیل دی کہ اب اس تمغے کو تاریخی اقدار کے بجائے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان لوگوں کے درمیان ایک بحث چھڑ گئی جنھوں نے اس اقدام کو مصر کی آزادانہ فیصلہ سازی اور علاقائی استحکام میں کردار ادا کرنے والوں کو عزت دینے کی صلاحیت کے طور پر دیکھا اور جو لوگ اسے قومی علامت کی قیمت پر واشنگٹن کے ساتھ ضرورت سے زیادہ قربت کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس طرح تمغہ بظاہر ایک سنہری میڈل سے طنز اور تنقید کے موضوع میں تبدیل ہو گیا۔
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ‘نیلسن منڈیلا اور جمی کارٹر جیسے ناموں کی عزت’ اب صدر ٹرمپ کے گلے میں جھولتے ہوئے میڈل کے سبب کم ہو گئی ہے۔
بشکریہ بی بی سی
