وسعت اللہ خان
والد مرحوم یہ کہاوت اکثر سناتے تھے کہ کوئی یہ کہے کہ تمہارے کان کتا لے گیا ہے تو کتے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے کان چھو کے دیکھ لو۔
ہر کچھ عرصے بعد سنتے سنتے کان پک گئے کہ وفاق کو اگر مؤثر انداز میں چلانا ہے تو نئے صوبے بنانے پڑیں گے۔
یہ غبارہ کہیں سے بھی اڑتے ہی بانس نکل آتے ہیں، دلائل و ردِ دلائل کا بازار کھل جاتا ہے۔ وہ جماعتیں، ایکسپائرڈ سیاستدان اور تھنک ٹینک بھی شعلہ بار منجن چھابے میں رکھ لیتے ہیں جن کی عام دنوں میں گھر والے نہیں سنتے۔
چونکہ صارفین (عوام) بھی 78 برس کے دوران ہر طرح کی دو نمبریوں کے طرح طرح سے ڈسے ہوئے ہیں اس لیے وہ بھی مجمع کی صورت مداریوں کی باتیں اس امید پر دھیان سے سنتے ہیں کہ اس بار پٹاری سے واقعی کوئی ایسا سنگ چور ناگ نکل آئے جو پہلے کسی نے نہیں دیکھا۔

قیاسی کتے کے پیچھے دوڑنے سے پہلے اگر کوئی آئین کا آرٹیکل 239 پڑھ لے تو شاید خامخواہ ہانپنے سے بچ جائے۔
اس آرٹیکل میں صاف صاف لکھا ہے کہ کسی بھی صوبے کی جغرافیائی حدود میں کمی بیشی کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان (سینیٹ اور قومی اسمبلی) الگ الگ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کریں گے اور پھر یہ مسودہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے پاس کرے گی۔ اس کے بعد ہی صدرِ مملکت اس ترمیم پر دستخط کے مجاز ہوں گے۔
آرٹیکل 239 کی مذکورہ شق اب تک ایک بار یعنی 2018 میں ہی استعمال ہوئی جب قبائلی اضلاع کا 25ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبہ خیبرپختونخوا میں ادغام ہوا۔
گویا آئینی طور پر صوبوں کی حدود میں ردوبدل اتنا آسان نہیں۔ ہو سکتا ہے پنجاب آسانی سے خود کو دو یا تین صوبوں میں بدلنے پر مان جائے کیونکہ مرکز میں بھی مسلم لیگ نون ہے اور پنجاب اسمبلی میں بھی اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین گاڑھی بھی چھن رہی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی اس وقت سخت ضرورت بھی ہے۔
اگرچہ پنجاب کی ممکنہ تقسیم بھی فی الحال مفروضہ ہے مگر قابلِ یقین مفروضہ ہے کیونکہ پیپلز پارٹی بھی جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں ہے اور نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں پنجاب اسمبلی کی نونی اکثریت اس تجویز کی ’اصولی‘ حمایت کر چکی ہے۔
کیا بلوچستان کو پختون اور بلوچ اکثریتی صوبوں میں بانٹا جا سکتا ہے؟ بلوچوں کو تاریخی طور پر بلوچستان کی پشتون پٹی کے علیحدہ تشخص پر سنگین تحفظات کبھی بھی نہیں رہے کیونکہ یہ پٹی انگریز دور میں بھی کوئٹہ میونسپل انتظام کے تحت ریاست قلات کی حدود سے باہر تھی۔
مگر آج بلوچستان میں قوم پرستی کے جذبات جس سطح پر ہیں اور افغانستان و ایران سے پاکستان کے تعلقات جتنے حساس ہیں، آیا اس ماحول میں بلوچستان کو دو صوبوں میں بانٹنے کی خواہش کو آسانی سے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے؟ یہ خواہش پیٹرول سے آگ بجھانے کی کوشش میں بھی تو بدل سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں ہزارہ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک کو فی الحال خاص پذیرائی حاصل نہیں۔ ویسے بھی ہندکو اور پشتو اس خطے کی مشترکہ تاریخی ثقافت کا حصہ ہیں۔
ہری پور، ایبٹ آباد یا مانسہرہ کا رہائشی جتنا خود کو راولپنڈی سے قریب محسوس کرتا ہے اتنی ہی قربت پشاور سے بھی ہے۔
ہزارہ میں آبادی کا ایک حصہ پشتون ہے مگر ہندکو بولتا ہے۔ البتہ سیاسی اعتبار سے ہزارہ ڈویژن کا روایتی جھکاؤ پشتون قوم پرست تحریکوں کے بجائے وفاقی قومی دھارے کی جانب رہا ہے۔
اہلِ ہزارہ بھلے علیحدہ صوبے کی تجویز کا خیر مقدم کریں مگر صوبے کی پشتو اکثریت میں سوائے مسلم لیگ نون کے حامیوں کے پی ٹی آئی اور اے این پی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت امن و امان اور عدم استحکام کی موجودہ فضا میں اس تجویز کی حمایت کا خطرہ مول نہیں لے گی۔
سندھ کی بات کی جائے تو تاریخی اعتبار سے یہ سب سے زیادہ ’انتظام گزیدہ‘ خطہ رہا ہے۔ 19ویں صدی کے نیم وسط تک سندھ تالپور ریاست تھی جس پر 1843 میں انگریزوں نے قبضہ کر کے اسے بمبئی پریذیڈنسی کا انتظامی ڈویژن بنا دیا۔
بطور صوبہ سندھ کا انتظامی تشخص 93 برس بعد 1936 میں بحال ہوا۔ اگر سندھ 1947 تک بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ رہتا تو شاید پاکستان ہی نہ بنتا (سندھ اسمبلی نے ہی سب سے پہلے پاکستان میں شمولیت کی قرارداد اپنائی)۔
تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت مغربی پنجاب میں بسی اور مشترکہ زبان اور رہن سہن کے سبب انھیں نئی جگہ اپنانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔
مشرقی پاکستان میں مغربی بنگال کے بنگالی بولنے والے اور بہار کے اردو بولنے والے مسلمان نقل مکانی کر کے پہنچے مگر دیگر ہندوستانی صوبوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت نے سندھ کے شہروں کا انتخاب کیا جہاں سے ہندو آبادی بھاری تعداد میں سرحد پار جا رہی تھی۔
چونکہ مہاجرین شہروں میں یکدم بڑی تعداد میں پہنچے لہذا ان کا نئی جگہ کی ثقافت اور زبان کو اپنائیت سے دیکھنے کا عمل دیگر صوبوں میں بسنے والے مہاجروں کی نسبت خاصا سست رہا۔ آگے چل کے اسی سبب لسانی و سیاسی پیچیدگیاں بڑھتی چلی گئیں جنھیں مقامی اور مرکزی اشرافیہ نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے اور بڑھاوا دیا۔
تقسیم کے بعد سندھ کا سب سے بڑا شہر کراچی وفاقی دارلحکومت قرار پایا۔ اس اقدام سے سندھ میں پیدا ہونے والی بدزنی کے ازالے کے لیے نوزائید مرکزی حکومت نے تشفی بخش اقدامات نہیں کیے۔
1955 میں مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو ’پیرٹی‘ (یعنی برابری) کے جبری اصول کی بنیاد پر کم کرنے کے لیے مغربی پاکستان کے صوبوں کے حلق پر جس طرح ون یونٹ سکیم کا انگوٹھا رکھ کے صوبائی تشخص ختم کیا گیا اسے بھی سب سے زیادہ سندھ نے محسوس کیا۔
15 برس بعد صوبوں کا تشخص تو بحال ہو گیا مگر 1972 کے لسانی فسادات نے نئے اور پرانے سندھیوں کے مابین بدزنی کی گہری دراڑ ڈال دی۔
حالانکہ معاملہ محض اتنا تھا کہ صوبائی اسمبلی نے یہ قانون بنایا کہ اردو کے ساتھ ساتھ سندھی بھی سرکاری کام کاج اور تعلیم کا حصہ ہو گی۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں تھی کیونکہ برطانوی دور میں بھی انگریزی اور سندھی سرکاری روزمرہ کی زبانیں تھیں۔ کراچی میں سندھ پولیس کے میوزیم میں آج تک انیسویں صدی کی وہ ایف آئی آرز محفوظ ہیں جو سندھی زبان میں لکھی جاتی تھیں۔
چنانچہ سندھی زبان کی تاریخی حیثیت کی بحالی پر ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ کے نعرے نے یگانگت و ہم آہنگی و اخلاص کے پودے پر گویا ابلتا پانی ڈال دیا۔ بدزنی کا یہ شگاف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 1973 کے آئین کے تحت سندھ میں تعلیم اور ملازمتوں میں دس برس کے لیے جو دیہی و شہری کوٹہ مختص کیا گیا تھا، اگرچہ آج اس کی افادیت عملاً ختم ہو چکی ہے مگر بدزنی اس قدر ہے کہ اس کے خاتمے کے بارے میں 52 برس بعد بھی بات کرنا دشمنی کے برابر ہے۔ چنانچہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں دیہی و شہری کوٹہ برقرار ہے۔
تقسیم کے نتیجے میں پنجاب اور بنگال تقسیم ہوا مگر سندھ بطور سالم یونٹ پاکستانی فیڈریشن میں شامل ہوا۔ سندھ میں نئے صوبے بنانے کی راہ میں ایک بڑی جذباتی رکاوٹ جسے غیر سندھی مشکل سے سمجھتے ہیں یہ ہے کہ سندھ اگرچہ آج صوبہ ہے مگر اپنی موجودہ جغرافیائی حدود میں یہ 19ویں صدی تک ایک خودمختار ریاست تھا۔ چنانچہ اہلِ سندھ کے نزدیک یہ محض انتظامی یونٹ نہیں بلکہ وطن ہے اور وطن کا تصور ماں جیسا ہے۔
نئے صوبے بننے چاہییں یا نہیں؟ 78 برس میں ہر سیاسی مسئلے کو انتظامی عینک سے دیکھ کے سنیاسیوں نے جو اٹکل بچو نسخے تجویز کیے ان میں سے کوئی بھی کام نہ آ سکا۔
اس کے باوجود اہلِ اختیار نسخہ بدلنے پر ہرگز تیار نہیں اور اب یہ حالت ہے کہ مرکز ہو یا صوبے، پانچوں میں سے کسی کو رسی بھی نظر آ جائے تو باقی چار کو سانپ دکھائی دیتی ہے۔
دنیا بھر میں جو اقدامات انتظامی و سیاسی نظام کا معمول سمجھے جاتے ہیں ہمارے ہاں وہی اقدامات سازش نظر آتے ہیں۔ بد زنی، بد عہدی، بد انتظامی، ان تینوں کا سدِباب ہو تو ایمان، اتحاد اور یقینِ محکم کو تھوڑا بہت راستہ ملے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
